Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر12

وہ اپنے گھر پہنچ چکی تھی اور بہت خوش تھی۔۔ اس کی امی بھی اس کے آنے پر بہت خوش ہوئیں۔ اور اس کے  مستقل واپس آنے کا سن کر ، ان کو عجیب فکر لاحق ہوئی۔
بے شک جیسے بھی حالات میں، اس کی شادی ہوئی ہو۔۔ اور جس کسی سے بھی ہوئی ہو۔۔ لیکن ایسے مستقل طور پر گھر آ کر بیٹھنا، واقعی پریشان کن تھا۔ لیکن جو بھی ہو۔۔ وہ اب اپنی بیٹی کو کسی چیز کے فورس نہیں کرنا چاہتی تھیں ، سلیمان صاحب کا بھی یہی کہنا تھا کہ جب تک وہ چاہے، یہاں رہ سکتی ہے۔
۔ل
×××××
صبح اس کے ابو اسے یونیورسٹی چھوڑ کر آئے اور باقی واپسی کے لیے ، یہ اپنے وین والے کو کال کر کے بتا چکی تھی۔ یونیورسٹی میں سب پہلے جیسا تھا، وہاں کے ہنگامے، چہل پہل، رونق ، کچھ نہیں بدلا تھا سوائے اس کے، عادل کے اور غانیہ کے بھی۔
اس سارے عرصے میں اس کا غانیہ سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اب وہ یونیورسٹی آئی تو غانیہ سے ملاقات ہوئی۔ اسے حیرت تھی کہ غانیہ نے ، گزرے دنوں کی بابت، اس سے کوئی سوال نہ کیا۔ بلکہ وہ تو الٹا۔۔ اسے خود سے ذرا کھینچی کھینچی نظر آئی، اس کے علاؤہ اُسے ایک اور چیز بھی دیکھنے کو ملی کہ غانیہ اور عادل کی آپس میں کافی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو چکی تھی، بالکل ویسی جیسے پہلے اس کی اور عادل کی تھی۔
یہ دیکھ کر، اس کے دل میں پھانس سی چُبھی، آدھا ادھورا سا آنسو بھی آنکھ سے بہہ نکلا۔۔ لیکن پھر ، اس نے ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے خود کو پرسکون کیا اور سوچا۔۔ "کچھ غلط نہیں کر رہا وہ، پچھلی باتیں بھلا کر زندگی میں آگے بڑھنے کا حق اسے بھی ہے۔۔" 
اس نے ہر چیز، بہت کشادہ دلی سے قبول کی۔ اور پھر اپنے جھمیلوں میں مصروف ہو گئی، دن رات ، اپنی رفتار سے گزر رہے تھے، وہ دن بہ دن عجیب سی ہوتی جارہی تھی۔۔ خود کو کافی اکیلا اکیلا سا محسوس کرنے لگی تھی، طبیعت میں بھی عجیب چڑچڑا پن در آیا تھا۔
دن بھر پڑھنے لکھنے کے علاؤہ، اس کی  کوئی دوسری مصروفیت بھی نہیں تھی۔ اس لیے جس وقت وہ فارغ ہوتی، خوب بور ہوتی تھی۔اس کی امی بھی اب چاہتی تھیں کہ وہ واپس چلی جائے، انہوں نے ایک دو دفع اس سے بات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن یہ اس موضوع پر بات کرنے سے اتنا چڑ جاتی کہ اس کی امی کی پھر دوبارہ کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔
وہاں اُن موصوف کا بھی حال کچھ ایسا تھا، عدیل بھی عجیب چڑچڑا اور بدمزاج ہوگیا تھا، خیر یہ سب تو وہ پہلے بھی تھا لیکن اب اسکی بد مزاجی کی شدت پہلے سے بڑھ کر تھی، عموماً وہ خاموش اور اکیلا رہتا تھا، کسی سے بات بھی نہیں کرتا تھا، لیکن جب کوئی اس سے بات کرنے آتا تو وہ فضول میں ہی کڑوے کسیلے، الٹے سیدھے جواب دیتا، اور اس انداز میں دیتا کہ اگلا سلگ کر رہ جائے۔
اور ساتھ ہی وہ کافی کمزور اور بیمار بیمار سا لگنے لگا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کے پیرینٹس کو خاصی تشویش ہوئی، وہ جو اس کے معاملات سے لاتعلق ہوئے بیٹھے تھے، انہیں بھی اپنی اس کوتاہی کا احساس ہوا۔
وہ جس کنڈیشن میں تھا، اسے توجہ کی سخت ضرورت تھی، پہلے ہی سب کچھ عدیل کی مرضی پر چھوڑ کر وہ لوگ کافی غلط فیصلے کر چکے تھے، ان کا گھر تھا کہ مردہ خانہ جیسا لگنے لگا تھا ، ہر جگہ سکوت، سرد پن اور خاموشی تھی، کوئی کسی سے  بات نہیں کرتا تھا ، عادل تو گھر ہی بہت کم آتا تھا، اب اس کے مام ڈیڈ نے، ہمت کر کے، ان دونوں سے کئی بار بات کرنے کی بھی کوشش کی، وہ ان دونوں کو اپنی توجہ دینے کی کوشش کرتے، لیکن پھر بھی،  وہی حال تھا۔ وہی خاموشی قائم تھی۔
فوزیہ بیگم کو ، اتنے دنوں سے عنقا کا گھر سے غائب رہنا بھی کھلنے لگا تھا۔ سو وہ عدیل کے پاس گئیں، وہ حسب توقع اپنے روم میں تھا۔ "مام آپ۔۔!! مجھے بلا لیا ہوتا۔۔" اس نے اپنی عادت سے بڑھ کر تمیز سے بات کی۔
"نہیں بیٹا۔۔ کام مجھے تھا تو اس لیے میرا آنا بنتا تھا۔۔" انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔
"کام؟ مجھ سے۔۔؟؟" اس نے تعجب سے پوچھا۔۔ کیوں کہ عام طور پر ، اس کی مام کو اس سے کوئی کام نہیں پڑتا تھا۔
"ہاں۔۔ تم سے کام ہے۔۔!! وہ میں کہنے آئی تھی کہ عنقا کو واپس لے آؤ، کافی دن ہو چکے ہیں اسے گئے ہوئے، تمہارے ڈیڈ بھی اسے یاد کر رہے تھے۔۔'' ان کے لہجے میں مان بھرا تحکم تھا۔
"مام۔۔!! آپ کو اس کی یاد کیسے آگئی۔۔؟؟" اس نے بھی مسکرا کر، ان کے ساتھ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"مجھے نہیں پتہ کہ کیسے آئی ہے۔۔!! میں بس کہنے آئی ہوں کہ اس کو لے آؤ اور لانے کے بعد اس کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کرنا۔۔!!" انہوں نے منت کی۔
"میں نہیں لا رہا ۔۔ اپنی مرضی سے گئی تھی وہ، جب آنا ہوگا آجائے گی۔۔" اس نے دو ٹوک جواب دیا۔
"بیٹا ایسے نہیں کرتے۔۔ تم نے گھر دیکھا ہے۔۔ کیسا خالی خالی سا ہو گیا ، اتنا عرصہ ہوگیا ہے۔۔ گھر کی رونق ہی ختم  ہو کر رہ گئی، بس اب بہت ہوگیا، ختم کرو یہ سب۔۔ انسانوں کی طرح رہو۔۔" انہوں نے تھوڑی تلخی سے کہا۔
"بس مام۔۔ میں اسے واپس نہیں لا سکتا۔۔" اس کا لہجہ بھی اٹل تھا۔

   1
0 Comments